مذکور ہے کہ ایک دن ادہم رحمہ اللہ تعالیٰ کا بخارا کے باغات کی طرف سے گزر ہوا‘ آپ ایک نہر کے کنارے (جو باغات کے اندر سے ہوتی ہوئی نکلتی تھی) بیٹھ کر وضو کرنے لگے آپ نے دیکھا کہ نہر میں ایک سیب بہتا ہوا آرہا ہے‘ خیال کیا کہ اس کے کھا لینے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ چنانچہ اٹھا کرکھا لیا جب کھا چکے تو یہ وسوسہ پیدا ہوا کہ میں نے سیب کے مالک سے اجازت نہیں لی اور ناجائز طریقہ پر کھا لیا ہے۔ اس خیال سے باغ کے مالک کے پاس گئے کہ اسے اس امر کی اطلاع دے دیں تاکہ اس کی اجازت سے حلال و مباح ہو جائے۔ چنانچہ باغ کے دروازے کو جہاں سے یہ سیب بہہ کر آیا تھا کھٹکھٹایا‘ آواز سن کر ایک لڑکی باہر آئی آپ نے اس سے کہا کہ باغ کے مالک سے ملنا چاہتا ہوں‘ اسے بھیج دو، اس نے عرض کیا کہ وہ عورت ہے، آپ نے فرمایا کہ اچھا اس سے پوچھ لو۔ میں خود حاضر ہو جاﺅں۔
چنانچہ اجازت مل گئی اور آپ اس خاتون کے پاس تشریف لے گئے اور سارا واقعہ اس کو سنایا۔ خاتون مذکور نے جواب دیا کہ نصف باغ تو میرا ہے اور نصف سلطان کا ہے، اور وہ یہاں نہیں ہیں‘ بلخ تشریف لے گئے ہیں جوبخارا سے دس دن کی مسافت پر ہے‘ اس نے اپنے سیب کا نصف حصہ تو آپ کو معاف کر دیا۔
اب باقی رہا دوسرا نصف‘ اسے معاف کرانے آپ بلخ تشریف لے گئے‘ جب وہاں پہنچے تو بادشاہ کی سواری جلوس کے ساتھ جارہی تھی۔ اس حالت میں آپ نے سارے واقعہ کی بادشاہ کو خبر دی اور نصف سیب کی معافی کے طالب ہوئے، بادشاہ نے فرمایا: اس وقت تو میں کچھ نہیں کہتا کل میرے پاس تشریف لے آئیے، اس کی حسینہ و جمیلہ لڑکی تھی اور بہت سے شہزادوں کی نسبت کے پیغام اس کیلئے آچکے تھے لیکن اس شہزادی کا باپ یعنی بادشاہ انکار کر دیا کرتاتھا کیونکہ لڑکی عبادت گزار اور نیک کاروں کو بہت دوست رکھتی تھی اس لیے اس کی یہ خواہش تھی کہ دنیا کے کسی متورّع (پرہیزگار) زاہد سے اس کا نکاح ہو۔
جب بادشاہ محل میں واپس آیا تو اپنی لڑکی سے ادہم کا سارا واقعہ بیان کیا اور کہا کہ میں نے ایسا متورّع (پرہیز گار) شخص نہیں دیکھا کہ صرف نصف سیب حلال کرنے کیلئے بخارا سے آیا ہے‘ جب اس لڑکی نے یہ کیفیت سنی تو نکاح منظور کر لیا۔
جب دوسرے دن ادہم بادشاہ کے پاس آئے تو اس نے ان سے کہا کہ جب تک آپ میری لڑکی کے ساتھ نکاح نہ کریں گے آپ کو نصف سیب معاف نہیں کروں گا۔ ادہم نے کمال انکار کے بعد چار و ناچار نکاح کرنا منظور کر لیا۔
چنانچہ بادشاہ نے لڑکی کا ادہم کے ساتھ نکاح کر دیا جب ادہم خلوت میں اپنی بیوی کے پاس گئے تو دیکھا کہ لڑکی نہایت آراستہ وپیراستہ ہے اور وہ مکان بھی جہاں لڑکی تھی نہایت تکلفات کے ساتھ مزین ہے‘ ادہم ایک گوشہ میں جا کر نمازمیں مصروف ہو گئے حتیٰ کہ اسی حالت میں صبح ہو گئی‘ اور متواتر سات راتیں اس طرح گزر گئیں۔ اب تک سلطان نے سیب کا نصف انہیں معاف نہ کیا تھا اس لیے آپ نے بادشاہ کو یاددہانی کیلئے کہلابھیجا کہ اب وہ معاف فرما دیجئے۔ بادشاہ نے جواب دیا کہ جب تک آپ کامیری لڑکی کے ساتھ اجماع کا اتفاق نہ ہو گامیں معاف نہ کروں گا۔ آخر کار شب ہوئی اور ادہم اپنی بیوی کے ساتھ اجماع پرمجبور ہوئے، آپ نے غسل کیا نماز پڑھی اور چیخ مار کر مصلےٰ پر سجدہ میں گر پڑے۔ لوگوں نے دیکھا تو ادہم رحمہ اللہ تعالیٰ مردہ تھے۔
بعد ازاں لڑکی سے ابراہیم رحمہ اللہ تعالیٰ پیدا ہوئے چونکہ ابراہیم کے نانا کا کوئی لڑکا نہ تھا۔ اس لیے سلطنت ابراہیم کو ملی آپ کے سلطنت چھوڑنے کا واقعہ مشہورہے اس کی اصل بھی یہی ہے۔ (سفر نامہ ابن بطوطہ جلد 1صفحہ 106)
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں